محمد تحسین رضا نوری
خداے وحدہ لاشریک کی عطا کردہ نعمتوں پر خوش ہونا اور اس پر اللہ تبارک وتعالیٰ کا شکر ادا کرنا اہل ایمان کی علامت ہے، اور اس کی نعمتوں پر ناشکری کرنا گناہ عظیم ہے، اللہ تبارک وتعالیٰ نے ہمیں بے شمار نعمتوں، برکتوں اور رحمتوں سے نوازا، اُس نے ہمیں سب سے بڑی اور عظیم نعمت حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی صورت میں عطا فرمائی، اور اس عظیم نعمت کے طفیل ہمیں ایمان ملا، قرآن ملا، اسلام ملا، تہذیب ملی، یہاں تک کہ معرفت خدا بھی ملی تو حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے صدقے میں، اس لیے اس نعمت پر ہم عاشقان مصطفیٰ ﷺ خوشی کا اظہار کرتے ہیں اور اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرتے ہیں، لیکن آج بہت سے لوگ اس عظیم نعمت پر خوشی منانے کو ناجائز کہتے ہیں، جبکہ کسی چیز کے جائز ہونے کے لیے اتنا ہی کافی ہے کہ اس کے ناجائز ہونے کا قرآن و حدیث سے، اور اقوال محدثین و مفسرین سے کوئی ثبوت نہیں ملتا
شکر کی فضیلت اور نا شکری کی مذمت:
سنن ابو داؤد میں ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو ہر نماز کے بعد یہ دعا مانگنے کی وصیت فرمائی:
’’اللہم اعنی علی ذکرک وشکرک وحسن عبادتک‘‘
یعنی اے اللہ! تو اپنے ذکر، اپنے شکر اور اچھے طریقے سے اپنی عبادت کرنے پر میری مدد فرما۔ (ابو داؤد، کتاب الوتر)
اور حضرت نعمان بن بشیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے، حضورِ اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ’:’جو تھوڑی نعمتوں کا شکر ادا نہیں کرتا وہ زیادہ نعمتوں کا بھی شکر ادا نہیں کرتا اور جو لوگوں کا شکر ادا نہیں کرتا وہ اللہ تعالیٰ کابھی شکر ادا نہیں کرتا اور اللّٰہ تعالیٰ کی نعمتوں کو بیان کرنا شکر ہے اور انہیں بیان نہ کرنا ناشکری ہے۔ (شعب الایمان)
ولادت مصطفیٰ اور قرآنی آیات:
حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے ولادت مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کی خوشخبری پوری دنیا کو سنائی:
-(1) ربّ کریم قرآن مجید میں ارشاد فرماتا ہے:
ترجمہ: اور ان رسول کی بشارت سناتا ہوا جو میرے بعد تشریف لائیں گے اُن کا نام احمد ہے۔ (سورہ الصف، آیت 06)
-(2) اور ایک دوسری جگہ حضرت ابراہیم علیہ السلام اور حضرت اسماعیل علیہ السلام نے اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں دعا کی تھی، جیسا کہ قرآن کریم میں ہے:
ترجمہ: اے رب ہمارے اور بھیج ان میں ایک رسول انہیں میں سے کہ ان پر تیری آیتیں تلاوت فرمائے اور انہیں تیری کتاب اور پختہ علم سکھائے اور انہیں خوب ستھرا فرمائے بیشک تو ہی ہے غالب حکمت والا۔(سورہ بقرہ، آیت 129)
-(3) ولادت مصطفیٰ کے تعلق سے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
ترجمہ: بیشک اللہ کا بڑا احسان ہوا مسلمانوں پر کہ ان میں انہیں میں سے ایک رسول بھیجا جو ان پر اس کی آیتیں پڑھتا ہے اور انہیں پاک کرتا اور انہیں کتاب و حکمت سکھاتا ہے اور وہ ضرور اس سے پہلے کھلی گمراہی میں تھے۔ (آل عمران، آیت 164)
-(4) وَ مَا اَرسَلنٰكَ اِلَّا رَحمَةً لِّلۡعٰلَمِیۡنَ (سورہ انبیاء، آیت 107)
ترجمہ: اور ہم نے تمہیں نہ بھیجا مگر رحمت سارے جہان کے لیے۔
(5)---- ترجمہ: یہ اللہ کا فضل ہے جسے چاہے دے اور اللہ بڑے فضل والا ہے۔ (سورہ حدید، آیت 21)
(6)- ترجمہ: بیشک تمہارے پاس اللہ کی طرف سے ایک نور آیا اور روشن کتاب۔ (سورہ مائدہ، آیت 15)
اس کے علاوہ بے شمار قرآنی آیات اس بات پر شاہد ہیں کہ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی ولادت پر ذکر و شکر کی محفلیں منعقد کرنا جائز ہے، کیوں کہ خود رب العالمین نے قرآن کریم میں متعدد مقامات پر حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت کا تذکرہ فرمایا۔
عید میلاد النبی اور احادیث:
بُخاری شریف اور فتح الباری کی حدیث ہے: حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما فرماتے ہیں: ابو لہب مر گیا تو میں نے اسے ایک سال بعد خواب میں بہت برے حال میں دیکھا اور یہ کہتے ہوئے پایا کہ تمہاری جدائی کے بعد آرام نصیب نہیں ہوا بلکہ سخت عذاب میں گرفتار ہوں، لیکن جب پیر کا دن آتا ہے تو میرے عذاب میں تخفیف کردی جاتی ہے اور یہ اس وجہ سے ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت مبارکہ پیر کے دن ہوئی تھی اور جب ثویبہ نے اس روز ابو لہب کو آپ کی ولادت کی خبر دی تو اس نے ثویبہ کو آزاد کردیا تھا۔ ایک اور روایت حضرت ابو قتادہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے: ”رسول اللہ ﷺ سے پیر کے روزے کے بارے میں سوال کیا گیا تو آقا ﷺ نے ارشاد فرمایا: میں اسی دن پیدا کیا گیا۔‘‘ (صحیح مسلم، مشکوٰۃ شریف)
ایک اور مقام پر صحابہ کرام کی محفل میں حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ارشاد فرمایا: میں تم کو اپنے ابتدائی معاملات کی خبر دیتا ہوں میں حضرت ابراہیم علیہ السلام کی دعا اور حضرت عیسی علیہ السلام کی خوشخبری ہوں اور میں اپنی ماں کا وہ چشم دید منظر ہوں جو انہوں نے میری ولادت با سعادت کے وقت دیکھا تھا کہ ان کے جسم سے ایک ایسا نور نکلا جس کی روشنی میں انہیں شام کے محلات نظر آگئے۔ (مشکوۃ شریف)
حضرت عطا بن یسار رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں حضرت عبداللہ بن عاص رضی اللہ عنہ کے پاس گیا اور عرض کیا کہ مجھے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کی وہ نعت سناؤ جو تورات میں ہے تو انہوں نے پڑھ کر سنائی۔ (مشکوۃ شریف)
عید میلاد النبی اور ائمہ و محدثین:
حضرت علامہ جلال الدین سیوطی علیہ الرحمہ تحریر فرماتے ہیں: محفل میلاد کی اصل یہ ہے کہ لوگ اکٹھے ہو کر تلاوت قرآن کریں اور ان احادیث کو بیان کریں اور سنیں جن میں آپ کی ولادت مبارکہ کا تذکرہ ہے اور پھر شیرینی تقسیم کی جائے۔ یہ اچھے اعمال ہیں، ان پر اجر ہے کیوں کہ اس میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی قدر و منزلت اور آپ کی آمد پر اظہار خوشی ہے۔ (حسن المقصد فی عمل المولد)
علامہ ابن جوزی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں: مکہ مکرمہ، مدینہ طیبہ، مصر، شام، یمن الغرض مشرق تا مغرب تمام بلاد عرب کے باشندے ہمیشہ سے میلاد النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی محفلیں منعقد کرتے آئے ہیں۔ وہ ربیع الاول کا چاند دیکھتے تو ان کی خوشی کی انتہا نہ رہتی۔ چنانچہ ذکر میلاد پڑھنے اور سننے کا خصوصی اہتمام کرتے اور اس کے باعث بے پناہ اجر و کامیابی حاصل کرتے رہے ہیں۔“ (بیان المیلاد النبی)
ملا علی قاری حضرت امام برہان الدین بن جماعہ رحمۃ اللّٰہ علیہ کے معاملات کا تذکرہ کرتے ہوئے تحریر فرماتے ہیں:
’’ہمیں یہ بات پہنچی ہے کہ معمر ابو اسحاق بن اِبراہیم بن عبد الرحیم جب مدینۃ النبی میں تھے تو میلاد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کے موقع پر کھانا تیار کر کے لوگوں کو کھلاتے تھے، اور فرماتے تھے: اگر میرے بس میں ہوتا تو پورا مہینہ ہر روز محفل میلاد کا اہتمام کرتا۔‘‘
(المورد الروی فی مولد النبی ﷺ)
شیخ اسماعیل حقی علیہ الرحمہ تفسير روح البيان میں لكھتے ہیں: حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی ولادت پر شکر کا اظہار کرنا ہمارے لیے مستحب عمل ہے۔ (تفسير روح البيان)
حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی علیہ الرحمہ تحریر فرماتے ہیں: مکہ مکرمہ میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت با سعادت کے دن ایک ایسی میلاد کی محفل میں شریک ہوا جس میں لوگ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی بارگاہ اقدس میں ہدیۂ درود و سلام عرض کر رہے تھے اور وہ واقعات بیان کر رہے تھے جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت کے موقع پر ظاہر ہوئے اور جن کا مشاہدہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت سے پہلے ہوا۔ اچانک میں نے دیکھا کہ اس محفل پر انوار و تجلیات کی برسات شروع ہو گئی۔ میں نہیں کہتا کہ میں نے یہ منظر صرف جسم کی آنکھ سے دیکھا تھا، نہ یہ کہتا ہوں کہ فقط روحانی نظر سے دیکھا تھا، اللہ تعالیٰ ہی بہتر جانتا ہے کہ ان دو میں سے کون سا معاملہ تھا۔ بہر حال میں نے ان انوار میں غور و خوض کیا تو مجھ پر یہ حقیقت منکشف ہوئی کہ یہ انوار ان ملائکہ کے ہیں جو ایسی مجالس اور مشاہد میں شرکت پر مامور و مقرر ہوتے ہیں۔ میں نے دیکھا کہ انوار ملائکہ کے ساتھ ساتھ اَنوار رحمت کا نزول بھی ہو رہا تھا۔ (فيوض الحرمين)
اس کے علاوہ بے شمار علماء و فقہاء، محدثین و مفسرین کے اقوال و افعال ہیں جن سے حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی ولادت کا جشن منانا ثابت ہے۔ لیکن مضمون کی طوالت کے خوف سے سب كا تذکرہ ممکن نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی ولادت با سعادت کا خصوصی فیضان عطا فرمائے، اور ہمارے دلوں میں عشق رسول صلی اللہ علیہ وسلم پیدا فرمائے، آمین یارب العالمین بجاہ سید المرسلین ﷺ۔
Copyright @ 2017. Al Jamiatul Ashrafia
All rights reserved
05462-250092
info@aljamiatulashrafia.org