
بسم اللہ الرحمن الرحیم- الجواب ـــــــــــــــــــــــــــ: اب اس کنویں کا پانی پاک ہے، اس سے وضو اور طہارت جائز ہے، کنویں میں گرنے والے انسان کا جو کپڑا کنویں میں رہ گیا چاہیے تو یہی تھا کہ اسے نکال دیا جاتا اگر نہیں نکالا تو اس سے دوبارہ آنے والا پانی ناپاک نہ ہوا؛ اس لیے کہ یہ یقینی نہیں کہ وہ کپڑا ناپاک تھا یعنی جس وقت یہ شخص کنویں میں گرا تھا اس وقت وہ کپڑا ناپاک تھا، کنویں میں گر کر مرنے سے وہ شخص ناپاک ضرور ہوا مگر اس کی یہ ناپاکی نجاست حکمیہ ہے اور نجاست حکمیہ کپڑے پر سرایت نہیں کرتی؛ اس لیے اس کے مرنے سے کپڑا ناپاک نہ ہوا۔ کنویں کے معاملے میں عوام کی آسانی کے لیے تخفیف ہے۔ آپ غور کریں اس شخص کے مرنے پر کنویں کا بیس فٹ پانی ناپاک ہوا، پانی کے ساتھ کنویں کی دیواریں بھی ناپاک ہوئیں، ناپاک پانی نکالنے کے بعد بھی کنویں کی دیواریں ناپاک ہی رہیں اب دوبارہ پانی آیا تو دیواروں کے ناپاک ہونے سے اس پانی کو بھی ناپاک ہونا چاہیے لیکن اس پر اجماع ہے کہ دوبارہ آنے والا پانی ناپاک نہیں ۔ اس لیے کہ اس کو ناپاک ہونے کاحکم دینے میں حرج ہے، اسی طرح یہاں بھی اس شک کی بنا پر کہ ہو سکتا ہے کہ یہ کپڑا ناپاک رہا ہو ، کنویں کے ناپاک ہونے کا حکم دینے میں حرج ہے اس لیے یہاں پر کنویں کے پاک ہونے ہی کا حکم دیا جائے گا۔واللہ تعالی اعلم (فتاوی جامعہ اشرفیہ، جلد ۵،(فتاوی شارح بخاری))
Copyright @ 2017. Al Jamiatul Ashrafia
All rights reserved
05462-250092
info@aljamiatulashrafia.org