بسم اللہ الرحمٰن الرحیم- الجواب ـــــــــــــــــــــــ: عا قلہ بالغہ عورت اپنے نکاح کی خود مختار ہے، اپنے کفو میں جس سے چاہے نکاح کرے، وہ نکاح صحیح ہے، اگرچہ ولی نے اجازت نہ دی ہو۔ ہدایہ میں ہے: وینعقد نکاح الحرۃ العاقلۃ البالغۃ برضائھا و إن لم یعقد علیہا ولیّ بکرا کانت أو ثیبا۔( ( صورتِ مسئولہ میں اگرچہ باپ نے پہلی جگہ کے لیے اقرار کر لیا اور راضی ہو گیا لیکن جب لڑکی نے کپڑے پھینک دیے اور عقد سے انکار کر دیا تو باپ کا اقرار اور رضا مندی قطعاً بے کار ہے ، جب کہ لڑکی راضی نہیں تو باپ کو اس پر جبر کرنے کا کوئی حق حاصل نہیں ہے، کیوں کہ عاقلہ بالغہ پر ولایت اجبار نہیں ۔ ہدایہ میں ہے: لا یجوز للولی اجبار البکر البالغۃ علی النکاح۔( ( قوم کے چودھری وغیرہ کا یہ کہنا کہ لڑکی انکار کرتی ہے تو کرنے دو مگر شادی وہاں ہوگی جہاں پہلے لڑکی کے باپ نے زبان دی ہے ، محض بے جا ہے ، کیوں کہ عورت عاقلہ بالغہ کا نکاح بغیر اس کی اجازت اور رضا مندی کے کوئی بھی نہیں کر سکتا، اس کا باپ چودھری توکیا بادشاہ بھی نہیں کر سکتا ۔ عالم گیری میں ہے: لا یجوز نکاح احد علی بالغۃ صحیحۃ العقل من اب أو سلطان بغیر اذنھا بکرا کانت او ثیبا۔( ( لہٰذا لڑکی کا عقد وہیں ہوگا جہاں لڑکی راضی ہے اور جب کہ اس صورت میں لڑکی کے باپ کو لڑکی کی مرضی کے بغیر نکاح کا اختیار ہی نہیں وہ شرعاً بے قصور ہے ۔ ایسی صورت میں اسے سزا دینا ظلم اور خلافِ شرع ہے۔ واللہ تعالیٰ اعلم۔ (فتاوی حافظ ملت)
Copyright @ 2017. Al Jamiatul Ashrafia
All rights reserved
05462-250092
info@aljamiatulashrafia.org